لاہور(حال نیوز)پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیف سلیکٹر انضمام الحق نے اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں ٹیم کیلئے جو کر سکتا تھا، وہ کیا، اب نئے لوگوں کو موقع ملنا چاہئے،30 جون تک معاہدے کا وقت پورا کروں گا اس کے بعد ذمہ داریاں نہیں نبھاﺅں گا ،میں ایک کرکٹر ہوں اور میرا روزگار اسی پیشے سے وابستہ ہے، اگر کرکٹ بورڈ نے مجھے کوئی مختلف ذمہ داری دی تو میں ضرور دیکھوں گا لیکن سلیکشن کمیٹی کے لیے مزید کام سے معذرت کر چکا ہوں۔
اپنی خوشی سے دستبردار ہونے کا اعلان کر رہا ہوں، خواہش ہے پی سی بی ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کے لیے نئے چیف سلیکٹر کا اعلان کرے،تفصیلات کے مطابق لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انضمام الحق نے کہا کہ میں اپنے تین سال کے عرصہ میں جو کچھ ٹیم کیلئے کر سکتا ٰتھا، وہ کیا ہے اور اب نئے لوگوں کو موقع ملنا چاہئے کیونکہ اگلے سال ٹی 20 ورلڈکپ آ رہا ہے جس کیلئے لوگوں کو مناسب وقت ملنا چاہئے۔میں کرکٹ بورڈ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے مکمل اختیار دیا اور میرے فیصلوں کی حمایت کی اور اب میں 30 جولائی تک اپنا وقت پورا کرنے کے بعد بطور چیف سلیکٹر سبکدوش ہو جاﺅں گا۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال سے میں اپنی طرف سے جو کچھ کر سکتا تھا، وہ کیا ہے اور اب بورڈ سے اجازت طلب کر لی ہے۔
چیف سلیکٹر نے آئی سی سی کرکٹ ورلڈکپ میں قومی ٹیم کی کارکردگی کو تسلی بخش قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہماری ٹیم بہت اچھی تھی اور ماہرین نے بھی پاکستان کو ورلڈکپ جیتنے والی ٹیموں میں شامل کیا تھا مگر قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ایک سوال کے جواب میں انضمام الحق کا کہنا تھا کہ اگر بورڈ نے مجھے کوئی اور عہدے کی پیشکش کی جو میرے مطابق ہوا تو میں اس پر ضرور غور کروں گا۔انہوں نے کہا کہ انہیں اب تک کرکٹ بورڈ کی جانب سے کسی عہدے کی پیشکش موصول نہیں ہوئی، تاہم اپنے کام میں مجھے فری ہینڈ دینے پر میں پاکستان کرکٹ بورڈ کا مشکور ہوں۔ان کا کہنا تھا کہ ابتدائی میچوں میں پاکستان ٹیم کو شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا، لیکن اختتامی میچ میں قومی ٹیم علیحدہ انداز میں دکھائی دی۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انضمام الحق کا کہنا تھا کہ قومی ٹیم نے دونوں فائنلسٹ ٹیموں کو شکست دی، لیکن بدقسمتی سے ہماری ٹیم سیمی فائنل میں جگہ نہیں بناسکی۔شعیب ملک سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں سابق کپتان کا کہنا تھا کہ لیجنڈ آل راو¿نڈر ورلڈکپ سے قبل گزشتہ 3 سال سے ٹیم کا حصہ تھے، انہوں نے 50 سے 60 میچز کھیلے اور ان میں پرفارمنس دکھائی اور اسی بنیاد پر انہیں ٹیم کا حصہ بنایا گیا۔امام الحق سے متعلق سوال کے جواب میں انضمام الحق کا کہنا تھا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ پہلا پاکستانی اوپنر ہے جس کا رن اوسط اتنے میچز کھیلنے کے باوجود 50 سے زائد ہے۔
سابق کپتان کا کہنا تھا کہ ‘میں جب سلیکشن کمیٹی کا چیئرمین نہیں تھا، امام الحق تب بھی انڈر 19 ٹیم کا حصہ تھے۔ورلڈکپ میں رن ریٹ کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انضمام الحق کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس رن ریٹ کا اندازہ لگانے کا میٹر نہیں تھا۔انہوں نے کہا کہ رن ریٹ ٹیم اور انتظامیہ کے ذہن میں تھی اور کوشش بھی کی گئی، تاہم وکٹیں مشکل ہونے کی وجہ سے یہ اہداف حاصل کرنا مشکل ہوگئے۔تجربہ کار شعیب ملک اور محمد حفیظ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انضمام الحق کا کہنا تھا کہ ان کے مستقبل کا فیصلہ نئی سیلکشن کمیٹی کرے گی۔
ورلڈکپ میں دیگر کھلاڑیوں کو موقع نہ دینے کے سوال پر جواب میں انضمام الحق کا کہنا تھا کہ جن کھلاڑیوں کو ورلڈکپ کے دوران میچ نہیں کھیلا گیا ان سے معافی مانگتا ہوں، میرے فیصلے پاکستان کرکٹ کی بہتری کے لیے تھے جو غلط بھی ہوسکتے ہیں.۔ان کا کہنا تھا کہ فخر زمان، شاداب، امام الحق اور بابر اعظم سمیت کئی نوجوان کھلاڑیوں کو ڈیبیو کروایا، 2016 سے اب تک 15 نوجوان کھلاڑی تینوں فارمیٹ میں کھیل رہے ہیں، یہ کھلاڑی آئندہ کئی سال تک پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
یاد رہے کہ 3 سال قبل انضمام الحق کو قومی سلیکشن کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا، ان کے دور میں پاکستان کی ٹیسٹ اور ون ڈے میں کارکردگی اچھی نہیں رہی اور ان کی سلیکشن اور جانب داری پر سابق ٹیسٹ کرکٹرز بارہا سوالات اٹھاتے رہے ہیں۔انضمام الحق کی بطور چیف سلیکٹر عہدے کی معیاد اپریل میں ختم ہو گئی تھی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ نے ان کی معیاد میں ورلڈ کپ تک توسیع کر دی تھی۔