نواز شریف جھوٹ بھی گئے تو باہر نہیں جا سکیں گے

0

اسلام آباد ( حال نیوز)سپریم کورٹ میں العزیزیہ سٹیل ملز ریفرنس میں سزا کاٹنے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست پر قومی احتساب بیورو (نیب) سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ایک ہفتے میں رپورٹ طلب کرلی۔منگل کے روز چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم کی درخواست پر سماعت کی، سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے وکیل خواجہ حارث پیش ہوئے ،انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ ہم نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر رکھی ہے، ہم نے طبی بنیادوں پر ضمانت کے لیے رجوع کیا تھا، جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث سے استفسار کیا ‘نواز شریف کی میڈیکل ہسٹری ہے، آپ نے ان کی ساری رپورٹس لگائی ہیں، کیا لندن کی رپورٹس یہاں کے ڈاکٹرز کو نہیں دی گئیں، ہم پمز کی پہلی رپورٹس دیکھنا چاہیں گے، پہلی رپورٹ میں نواز شریف کی عمر 65 اور دوسری میں 69 سال ہے، ڈاکٹر نے نواز شریف کی عمر 4 سال بڑھا دی ہے۔وکیل نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ 29 جولائی 2018 سے نواز شریف کی مختلف میڈیکل رپورٹس لگائی ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا ہمیں تمام میڈیکل رپورٹس پڑھنا ہوں گی۔خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کے معالج ڈاکٹر ڈیوڈ لارنس ہیں جس پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا ‘ہمیں معلوم ہے نوازشریف کا علاج لندن میں ہوا تھا، 29 جولائی 2018 کی میڈیکل رپورٹس سے پڑھنا شروع کرتے ہیں اور تمام رپورٹس کا جائزہ لیتے ہیں۔ 16 جنوری کو پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیولوجی نے پہلی میڈیکل رپورٹ دی جبکہ علامہ اقبال میڈیکل کالج، جناح ہسپتال نے دوسری میڈیکل رپورٹ دی۔نواز شریف کے وکیل نے بتایا کہ گورنر پنجاب نے 30 جنوری کو آرمڈ فورس انسٹیٹیوٹ آف کارڈیولوجی (اے ایف آئی سی) راولپنڈی کے ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ تشکیل دیا جبکہ سروسز ہسپتال کی بھی میڈیکل ٹیم نے 6 فروری کو رپورٹ دی۔ حکومت پنجاب نے 4 رکنی خصوصی میڈیکل بورڈ تشکیل دیا، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ یہ بورڈ کب بنا؟ اس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 29 جنوری کو بورڈ نے رپورٹ پیش کی، دوسری رپورٹ سروسز ہسپتال نے 5 فروری کو جمع کروائی۔ 15 فروری کو علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال کے ڈاکٹروں پر مشتمل بورڈ بنا اور 18 فروری کو بورڈ نے رپورٹ دی۔ اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہائیکورٹ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ کچھ درخواستیں واپس لے لی گئیں تھیں، نواز شریف کی طبی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ لندن میں زیر علاج رہے ہیں۔بنچ کے رکن جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ میڈیکل کمیٹی نے بتایا کہ ان کو نواز شریف کے علاج کا طریقہ کار نہیں بتایا گیا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ اگر وہ ان بیماریوں میں مبتلا ہیں اور صحت مزید خراب نہیں ہوئی تو صورتحال مختلف ہے، ہم میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لے لیتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیتے ہیں کہ ہائیکورٹ نے ان رپورٹس کا جائزہ لیا یا نہیں۔چیف جسٹس نے نواز شریف کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ میں نے ہائیکورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، آپ نے طبعی بنیادوں پر ہائیکورٹ میں ایک درخواست دی جسے واپس لے لی ، کیا 15 جنوری سے قبل کی نواز شریف کی طبی تاریخ موجود ہے، اس پر خواجہ حارث نے کہا کہ پمز ہسپتال کی ایک میڈیکل رپورٹ موجود ہے جب وہ اڈیالہ جیل میں تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے نواز شریف لندن میں بھی زیر علاج رہ چکے ہیں۔اس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نوازشریف کی دوسری میڈیکل رپورٹ علامہ اقبال میڈیکل کالج لاہور کی ہے، جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلی رپورٹ میں نواز شریف کی عمر 65 دوسری میں 69 سال ہے، ڈاکٹرنے چند روز میں ہی نواز شریف کی عمر 4 سال بڑھا دی ہے۔ 17 جنوری 2019 کو نواز شریف کی دوسری میڈیکل رپورٹ آئی، جس میں نواز شریف کا بلڈ پریشر کافی زیادہ ہے، رپورٹ کے مطابق نوازشریف کو گردے میں پتھری، ہیپاٹائٹس، شوگر اوردل کا عارضہ ہے، رپورٹس اس لیے دیکھ رہے ہیں کہ کیا نواز شریف کو یہ چاروں پرانی بیماریاں ہیں، ہم یہ چیک کر رہے ہیں کہ مزید علاج کی ضرورت ہے یا نہیں۔اس پر خواجہ حارث نے بتایا کہ نواز شریف کے گردے کا مسئلہ تیسرے درجے پر پہنچ چکا ہے جبکہ دل کے معائنے کا کہا گیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو معائنے کا حصہ ہے اس میں دل کے حوالے سے کچھ نہیں کہا گیا۔ مریض اہم ہو تو ڈاکٹرز ایک ٹیسٹ کو 10، 10 مرتبہ کرتے ہیں، ڈاکٹرز نے اہم مریضوں کے لیے خود ساختہ پروٹوکولسٹ ٹرم بنا رکھی ہے، یہ اصطلاح اہم مریضوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، اس لیے بورڈ میں شامل ڈاکٹرز نے سینئر ڈاکٹرز پر مشتمل ایک بڑا بورڈ تشکیل دینے کا کہا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیکل بورڈ نے بھی صرف مزید معائنے کی تجویز دی ہے، اس رپورٹ کے مطابق نواز شریف کا دل بالکل ٹھیک ہے۔جس پر خواجہ حارث بولے کہ جو شریان دماغ کو خون پہنچاتی ہے اس میں 43 فیصد خرابی ہے 2016میں لندن کے ڈاکٹر کی رپورٹ کے مطابق پہلے یہ شریان 17 فیصد خراب تھی ، دماغ کو خون پہنچانے والی شریان 50 فیصد خراب ہو جائے تو کسی بھی وقت ایمر جنسی صورتحال پیدا کر سکتی ہے نواز شریف کو انجائینہ کی بیماری بھی لاحق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ نواز شریف ان تمام بیماریوں کے باوجود 2018 کے انتخابات کی مہم، ریلیوں اور جلسوں میں شرکت کرتے رہے جبکہ انہوں نے مقدمات کے ٹرائل کا سامنا کیا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ 7فروری 2019 کی رپورٹ کے مطابق 2011 میں نوا شریف کا دل بائیں طرف سے خراب ہوا، 2011میں ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوئی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سینے میں درد کی شکایت ہوئی جو کہ ایک گولی دینے سے ٹھیک ہو گئی۔ خواجہ حارث نے کہا کہ ہر رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کو ہسپتال میں جانا چاہیے، تمام رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ مریض کی انجیوگرافی ہونی چاہیے۔بعد ازاں عدالت نے سماعت کے دوران آج کے دلائل مکمل ہونے پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 26 مارچ تک ملتوی کردی۔یاد رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 25 فروری کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ان کی خراب صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.