بھارت میں مسلمانو کی حالت زار
مغرب نے دنیا کو جو طرز حکومت(جمہوریت) دیا ہے ا±سے مثالی طرز حکومت سمجھا جاتا ہے اور جمہوری ملک کا سیکولر ہونا بھی ایک طے شدہ معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کا پڑوسی ملک بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوری ریاست اور سیکولر ہونے کا دعوے دار ہے۔ جہاں تک سب سے بڑی جمہوریت ہونے کے دعویٰ کا تعلق ہے تو اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہو گا، اس لیے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا میں چین کے بعد بھارت ہی سب سے بڑا ملک ہے اور چین میں وہ جمہوریت نہیں ہے جسے مغرب تسلیم کرتا ہو۔ لہٰذا یہ دعویٰ غلط نہیں ہے۔ البتہ سیکولرازم اپنانے کا مطلب ہے کہ ریاست کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ قانون سب شہریوں پر یکساں لاگو ہو گا۔ زبان ، ذات، نسل اور رنگ کی بنیاد پر بھی کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں ہو گا۔ سیکولرازم کے ان اصولوں کو بنیاد بنا کر اگر بھارت کو پرکھا جائے تو یہ فیصلہ کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی کہ بھارت خاص طور پر بی جے پی کے دور کا بھارت سیکولرازم کی ضد بنا ہوا ہے۔ بھارت آج ایک ایسی انتہا پسند ہندو ریاست میں تبدیل ہو چکا ہے جس میںغیر ہندو خاص طور پر مسلمان بن کر جینا از حد مشکل ہو چکا ہے۔ ریاست کا نام ہندوستان ہونے کی وجہ سے ہندوا سے صرف ہندووں کے مقیم ہونے کی جگہ سمجھتا ہے۔ غیر ہندو کا ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ بی جے پی کی حکومت اعلانیہ ایسے کام کرتی ہے جن کا مقصد واضح ہوتا ہے کہ ہم ہندوستان کو صرف ہندوﺅں کا ٹھکانہ سمجھتے ہیں۔ جبکہ کانگرس ڈھکے چھپے انداز میں اور آہستگی سے اسی ہدف کی طرف بڑھتی رہی ہے۔ بہرحال یہ کہنا درست ہو گا کہ سیکولرازم کے حوالے سے بھارت کا اصل چہرہ بی جے پی کے دور حکومت میں بے نقاب ہوا ہے۔ آئیے برصغیر ہند کی تقسیم کے بعد اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں سے سلوک کے حوالے سے بھارتی تاریخ پر سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔
حیدر آباد دکن کی ریاست اگرچہ بھارت میں گھِری ہوئی تھی، لیکن ا±س نے پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کیا۔ 11 ستمبر1948ءکو جس دن معمار پاکستان قائداعظم محمد علی جناح اس دار فانی سے کوچ کر کے ابدی جہان پہنچ گئے، اسی روز بھارت نے حیدر آباد دکن پر حملہ کر کے ریاست پر قبضہ کر لیا۔ اِس سے پہلے اور بعد میں دکن کے مسلم کش فسادات میں5 لاکھ بے بس مسلمان شہید کر دئیے گئے۔1964ءمیں کلکتہ میں 100سے زائد مسلمان شہید کر دیے گئے، ہزاروں گھروں کو نذرِ آتش کر دیا گیا۔ 1983ئ میں آسام کے گاﺅں”تلی“ میں1800 سے زاہد مسلمانوں کوشہید کر دیا گیا۔کشمیر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ امریکہ، مغرب اور اسرائیل بھارت کی پشت پر ہیں۔ لہٰذا وہ کشمیر میں ہونے والے بے مثل ظلم و تشدد کو چھپاتے رہے۔ مغربی میڈیا میں یا تو کشمیر میں توڑے جانے والے ظلم و ستم کا ذکر ہی نہیں ہوتا یا ا±س کی شدت ظاہر نہیں کی جاتی لیکن گزشتہ سال سے مغرب میں بھی اس کا ذکرسننے میں آنے لگا۔ یہاں تک کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کا ممبر کشمیر میں انسانیت سوز مظالم کی روداد سناتے ہوئے رو پڑا۔
پاکستان کے حکمرانوں کا معاملہ یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے تو وہ بعض اوقات بھارتی ظلم کے خلاف آواز ا±ٹھا دیتے ہیں، لیکن مسلمانوں کے ساتھ جو ناروا سلوک بھارت کے دوسرے حصوں میں ہو رہا ہے اس سے ہمارے حکمران مکمل طور پر لا تعلق رہتے ہیں۔ اب ہندو پنڈت سوامی سوا روپ نند سرسوتی نے بابری مسجدکی حدود میں رام مندر کی تعمیر کے لیے سنگ ِبنیاد رکھنے کے لیے ہندوو?ں کو 20 مارچ کو ایودھیا جمع ہونے کی کال دی ہے۔ 2014ءکے انتخابات کے موقع پر بھی بی جے پی نے اپنے منشور میں یہ بات شامل کی تھی کہ بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کیا جائے گا۔ 2002ءمیں جب بھارتی ریاست گجرات میں موجودہ وزیراعظم نریندر مودی وزیر اعلیٰ تھے، تاریخ ہند کے بد ترین مسلم کش فسادات ہوئے اور3 ہزار مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور دو لاکھ سے زاہد مسلمانوں کو گھروں سے نکال کر جبراً علاقہ بدر کر دیا گیا۔ یہ اس لیے ممکن ہوا کہ وشوا ہندو پریشد کے دہشت گردوں کو حکومت نے اس قتل عام کی کھلی چھٹی دی تھی۔
1992ءمیں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا اس پر مسلمانوں نے پ±ر امن احتجاج کیا لیکن اس کے باوجود ہندو دہشت گردوں نے بال ٹھاکرے کی قیادت میں مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس کے دروازے بند کر کے آگ لگا دی گئی اور پاکستان کے سینکڑوں مسلمان دوران سفر زندہ جلا دیے گئے۔ناظرین کو اس بات سے آگاہ کرنا ہمارا قومی و ملی فریضہ ہے کہ کشمیر میں جو بھارت کے ظلم و تشدد میں شدت آئی ہے اور بھارتی افواج کی درندگی اور بہیمیت میں جو اضافہ ہوا ہے اس کا ماسٹر مائنڈ اسرائیل ہے۔ اسرائیل بھارت کو انسان کو ٹارچر کرنے کے خوفناک طریقے سکھا رہا ہے تاکہ کشمیریوں میں دہشت پھیل جائے اور وہ بھارت کے خلاف تحریک چلانے سے باز رہیں۔
کیا بھارت میں ہندوو?ں کا مسلمانوں پر ظلم و ستم اور اسرائیل کا فلسطینیوں کا وقفہ وقفہ سے قتل عام ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ پھر یہ کہ اللہ رب العزت نے قرآنِ پاک میں ہمیں آگاہ نہیں کر دیا تھا کہ مشرک اور یہودی تمہارے بدترین دشمن ہیں، اِس کے باوجود اگر عرب کے حکمران اسرائیل سے دوستی کے لیے مرے جا رہے ہیں اور ہم پاکستان کے مسلمان امن کی آشا اور محبت کے ز مزموں کے بہنے کی اور ثقافتی طائفوں کے تبادلوں کی مالا جپتے رہیں تو قصور کس کا ہے؟ سوچیے تو سہی! اپنے مظلوم بھائیوں کے خلاف ظالم کی مدد کون کر رہا ہے؟ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت نے روزِ اَوّل سے پاکستان کو قبول ہی نہیں کیا۔ وہ ہندوستان کی تقسیم کو اپنے مذہبی عقیدے کے خلاف قرار دیتا ہے اور ہندوستان کو صرف ہندوو?ں کا ٹھکانہ قرار دیتا ہے۔ ا±ن کے نزدیک مسلمان کا وجود ہندو ستان کو پلید کر رہا ہے گویا ہندو کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا نہیں پاکستان اور مسلمان کے وجود کا ہے۔ یہ بات پاکستان کے سیکولر دوستوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ پکار ا±ٹھتے ہیں تو کیا دو ایٹمی ممالک کو تصادم کی طرف لے جایا جائے تاکہ خطہ تباہ و برباد ہو جائے۔ سوال یہ ہے کہ کون کہتا ہے کہ جنگ واحد آپشن ہے۔ لیکن اپنے دشمن کو پہچانو تو سہی۔ پاکستان کا مطلب کیا لا الٰہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر ہم نے پاکستان حاصل کیا تھا۔ یادرکھیے! جان جائیں اور مان لیں کہ پاکستان کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے ہمیں اس نعرے میں محمد رسول اللہ کا اضافہ کر کے اِسے بطورنظام پاکستان میں نافذ کرنا ہو گا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان میں سیاسی استحکام آ جائے گا۔ معاشی صورتِ حال قابلِ رشک ہو جائے گی۔ معاشرتی اور سماجی لحاظ سے پاکستان صحیح ٹریک پر آ جائے گا۔ دنیا کے بہت سے ممالک کے مفادات پاکستان سے منسلک ہو جائیں گے۔ خود بھارت کو بھی اپنے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے پاکستان سے اچھے تعلقات قائم کرنے کی احتیاج ہو گی۔ تب ہندو بھارتی مسلمان پر ظلم کرنے سے پہلے سوچے گا کہ یہ مسلمان یتیم نہیں ہیں۔ مضبوط اور زور آور پاکستان ا±ن کی پشت پر کھڑا ہے۔ا±س کے مفادات اس کو مجبور کریں گے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے گویا گیند مسلمانانِ پاکستان کے کورٹ میں ہے کہ وہ پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنا کر بھارت کے مسلمانوں کو تحفظ
فراہم کرتے ہیں یا نہیں۔ اللہ امت ِ مسلمہ کا حامی و ناصر ہو۔ آمین!